2416850276235152880
MjQxNjg1MDI3NjIzNTE1Mjg4MA==

ٹرمپ کے غزہ کی نقل مکانی کے منصوبے کے مقابلے کے لیے عرب رہنماؤں کی ریاض میں ملاقات


ریاض: عرب رہنماؤں کی غزہ کی جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے منصوبے پر ملاقات

ریاض: عرب رہنماؤں نے جمعہ کے روز ریاض میں ملاقات کی تاکہ غزہ کی جنگ کے بعد اس کی تعمیرِ نو کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دیا جا سکے۔ یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس تجویز کے ردعمل میں ہے جس میں انہوں نے غزہ کو فلسطینی باشندوں کے بغیر امریکہ کے زیرِ انتظام لینے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔

ٹرمپ کے منصوبے نے عرب ریاستوں کو اس کے خلاف متحد کر دیا ہے، تاہم اب بھی یہ سوال برقرار ہے کہ غزہ پر کون حکمرانی کرے گا اور اس کی تعمیرِ نو کے اخراجات کیسے پورے کیے جائیں گے۔

عرب رہنماؤں کی ریاض میں ملاقات

سعودی سرکاری ٹی وی پر نشر کی گئی ایک تصویر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو خلیجی عرب ریاستوں، مصر اور اردن کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ دکھایا گیا۔

سعودی حکومت سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک ذریعے نے تصدیق کی کہ اجلاس مکمل ہو چکا ہے، تاہم سعودی حکام نے فوری طور پر کوئی حتمی بیان جاری نہیں کیا۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے دفتر کے مطابق، وہ اجلاس کے بعد سعودی دارالحکومت سے روانہ ہو گئے، جس میں بحرین، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنما شریک تھے۔

ایک سعودی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کو بھی ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

ٹرمپ کی تجویز اور عالمی ردعمل

ٹرمپ نے حال ہی میں دنیا بھر میں غم و غصہ پیدا کر دیا جب انہوں نے تجویز دی کہ امریکہ غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھال لے اور اس کے 20 لاکھ سے زائد باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کر دے۔

"مصری منصوبہ"

کنگز کالج لندن کے ماہر اینڈریاس کریگ نے اجلاس سے قبل کہا:
"ہم اسرائیل-فلسطین تنازعے کے ایک تاریخی موڑ پر ہیں، جہاں ممکنہ طور پر امریکہ (ٹرمپ کے تحت) نئے حقائق تخلیق کر سکتا ہے جو ناقابل واپسی ہوں گے۔"

سعودی ذریعے کے مطابق، اجلاس میں "غزہ کے لیے ایک تعمیرِ نو منصوبے پر بات کی گئی تاکہ ٹرمپ کے منصوبے کا مقابلہ کیا جا سکے۔"

غزہ کی تباہی اور بحالی کے اخراجات

15 ماہ سے زائد عرصے پر محیط اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بعد، غزہ کا بڑا حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اس کی تعمیرِ نو پر 53 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔

11 فروری کو واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کے دوران، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ مصر ایک "طریقہ کار" پر مبنی منصوبہ پیش کرے گا۔

سعودی ذریعے کے مطابق، اجلاس میں "مصری منصوبے کا ایک ورژن" زیر بحث آیا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، "غیر رسمی برادرانہ اجلاس" میں لیے گئے فیصلے 4 مارچ کو مصر میں ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیے جائیں گے۔

منصوبے کے مالی وسائل

عرب رہنماؤں کے مطابق، غزہ کی تعمیرِ نو کے متبادل منصوبے پر عملدرآمد اس لیے ضروری ہے کیونکہ ٹرمپ نے اس کے اخراجات کو فلسطینی آبادی کی جبری نقل مکانی کا جواز بنایا ہے۔

قاہرہ نے ابھی تک اپنے منصوبے کی تفصیلات جاری نہیں کیں، لیکن سابق مصری سفارتکار محمد حجازی نے ایک منصوبہ پیش کیا جس میں "تین تکنیکی مراحل" شامل ہیں، جن پر تین سے پانچ سال کا عرصہ لگے گا۔

  1. پہلا مرحلہ (چھ ماہ): ابتدائی بحالی، ملبہ ہٹانا اور بنیادی ضروریات کی بحالی۔
  2. دوسرا مرحلہ: ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد، جہاں تعمیرِ نو کے تفصیلی منصوبے اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی پر تبادلہ خیال ہوگا۔
  3. تیسرا مرحلہ: مکانات اور بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے ایک سیاسی لائحہ عمل کی تشکیل۔

فنڈنگ کا چیلنج

خلیجی امور سے واقف ایک عرب سفارتکار نے کہا:
"مصری منصوبے کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کی مالی اعانت کیسے کی جائے؟"

انہوں نے مزید کہا:
"یہ ناقابل تصور ہوگا کہ عرب رہنما ملاقات کریں اور ایک مشترکہ وژن پر متفق نہ ہوں، لیکن اصل چیلنج اس وژن کے مواد اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیت میں مضمر ہے۔"

ماہر اینڈریاس کریگ کے مطابق، "یہ سعودی قیادت کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ خلیجی تعاون کونسل (GCC)، مصر اور اردن کو متحد کریں اور ٹرمپ کے جابرانہ بیانیے کا مؤثر جواب دیں۔" 

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی