اسلام آباد: شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تبادلے کی تجویز ناقابلِ عمل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کو جمعہ کے روز بتایا گیا۔
وفاقی حکومت کے نمائندہ قانونی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے یہ تجویز دی تھی، لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس طرح کے قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔
یہ معاملہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت تھا، جہاں عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت ہو رہی تھی، جس میں انہوں نے عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
قانونی افسر نے مزید کہا کہ شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی دونوں پاکستانی شہری ہیں، لہٰذا ان کا تبادلہ ممکن نہیں۔
عدالت نے حکومت سے استفسار کیا کہ عافیہ صدیقی کی امریکہ میں دائر رہائی کی درخواست پر پاکستانی حکومت کو کیا اعتراض ہے؟ اور قانونی افسر کو ہدایت دی کہ وہ حکومت سے ہدایات لے کر اس معاملے پر واضح مؤقف پیش کریں۔
جسٹس خان نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان کی سرکاری خط و کتابت کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا، اور اس معاملے میں سفارتی اصولوں پر سوال اٹھایا۔
عدالت کی معاون وکیل زینب جنجوعہ نے نشاندہی کی کہ شکیل آفریدی، جو پاکستان میں سزا یافتہ ہیں، ان کی اپیل پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شکیل آفریدی پر جاسوسی اور غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد کا الزام ہے۔
عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 28 فروری کو مقرر کرتے ہوئے قانونی افسر کو ہدایت دی کہ وہ حکومت کے مؤقف کو واضح کریں اور عافیہ صدیقی کی امریکہ میں جاری قانونی جنگ پر حکومت کی پوزیشن کو عدالت میں پیش کریں۔
ایک تبصرہ شائع کریں