اسلام آباد: پاکستان نے ہفتے کے روز خبردار کیا کہ وہ افغان پناہ گزین، جنہیں امریکہ کی جانب سے دوبارہ آبادکاری کے لیے قبول نہیں کیا جائے گا، انہیں غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جائے گا اور ملک سے بے دخل کر دیا جائے گا۔
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ٹی آر ٹی کو دیے گئے انٹرویو میں، جس کی تفصیلات ہفتے کے روز دفتر خارجہ نے شیئر کیں، کہا کہ پاکستان اس معاملے پر امریکہ سے مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم جن پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری مسترد کی جائے گی، انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا: "ہم اس معاملے کا جائزہ لیں گے اور مذاکرات کریں گے، تاہم اصولی طور پر، اگر کسی پناہ گزین کو کسی دوسرے ملک نے مناسب طریقہ کار کے بعد قبول کرنا تھا — چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگے — اور اگر وہ ملک انکار کر دیتا ہے، تو وہ شخص پاکستان میں غیر قانونی تارک وطن سمجھا جائے گا۔"
انہوں نے مزید کہا: "ہمیں مجبوراً ایسے پناہ گزینوں کو ان کے اصل وطن، یعنی افغانستان واپس بھیجنا پڑے گا۔"
پسِ منظر:
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریباً 6 لاکھ افغان شہری پاکستان ہجرت کر چکے ہیں، جنہیں طالبان حکومت سے انتقامی کارروائیوں کا خدشہ تھا۔ ان میں سے 80,000 سے زائد افراد کامیابی سے دوسرے ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں، مگر 40,000 سے زائد افغان شہری تاحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تقریباً 25,000 افغان شہریوں کی امریکہ میں آبادکاری متوقع تھی، لیکن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اچانک اس منصوبے کو معطل کر دیے جانے کے بعد تقریباً 20,000 افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
20 جنوری کو جاری کیے گئے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر میں ہوم لینڈ سیکیورٹی اور محکمہ خارجہ کے سیکریٹریز کو 90 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ آیا افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنا امریکی مفادات کے مطابق ہوگا یا نہیں۔
افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی اور امریکی منصوبے کی معطلی:
رپورٹس کے مطابق، امریکہ میں افغان آبادکاری کے منصوبے کی نگرانی کرنے والے دفتر (Office of the Coordinator for Afghan Relocation Efforts) کو اپریل تک مکمل طور پر بند کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، جس سے مزید افغان شہریوں کے دوبارہ آبادکاری کے امکانات مزید کم ہو گئے ہیں۔
یہ افغان شہری وہ افراد تھے جو بین الاقوامی برادری کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرتے رہے، جن میں:
- مترجم، مترجمین اور دیگر معاون عملہ شامل تھا جو امریکی حکومت اور اتحادی افواج کے ساتھ کام کر چکے تھے،
- افغان صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور امدادی ورکرز بھی شامل تھے۔
پاکستان کی پالیسی میں سختی:
نومبر 2023 میں پاکستان نے غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، جس کے نتیجے میں اب تک 8 لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
ابتدائی طور پر، پاکستان نے ان افغان شہریوں کو عارضی مہلت دی تھی جو تیسرے ملک میں آبادکاری کے منتظر تھے، تاکہ ان کے کیسز کی جانچ مکمل ہو سکے۔ تاہم، اسحاق ڈار کے تازہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مہلت اب ختم ہونے والی ہے۔
پاکستان اس وقت 25 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، جن میں سے تقریباً نصف افراد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ ان رجسٹرڈ مہاجرین کو جون 2025 تک قیام کی اجازت دی گئی ہے۔
گزشتہ ماہ، وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اسلام آباد اور راولپنڈی سے افغان باشندوں کی بے دخلی کی آخری تاریخ 31 مارچ مقرر کی گئی ہے۔ یہ اقدام وسیع تر ملک بدری مہم کا حصہ ہے۔
غیر ملکی حکومتوں، جنہوں نے ان پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی، کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آبادکاری کے عمل کو تیز کریں، بصورت دیگر، منتقلی کے منتظر افغان باشندوں کو افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں